Lashon ka Sahil (لاشوں کا ساحل )
Ishtiaq Ahmed stood as a renowned figure in the realm of Pakistani Young Adult fiction writing. Renowned for his distinctive narrative style, he earned fame through a collection of detective-themed, action-packed novels. His literary contributions are predominantly presented in the Urdu language, resonating with a wide readership. Notably, Ishtiaq Ahmed enjoyed a prominent stature during the late 1970s through the late 1990s, a period when his popularity soared and his literary works left an indelible mark on the literary landscape.
The novel "Lashon ka Sahil (Part 1) / لاشوں کا ساحل (حصہ اول)" marks the 321st installment in the esteemed "تینوں پارٹیوں کی مشترکہ مہم" Originally published by "Ishtiaq Publications" in October 1992, "Lashon ka Sahil (Part 1) / لاشوں کا ساحل (حصہ اول)" continues to captivate readers with its intriguing storyline.
For those eager to delve into its pages, the opportunity to read "Lashon ka Sahil (Part 1) / لاشوں کا ساحل (حصہ اول)" and download the novel by Ishtiaq Ahmed in PDF format is available. To initiate the download, kindly click on the designated button provided below.
Lashon ka Sahil (Part 1) | Novel Details |
---|---|
Novel Number: | 321 |
Novel Name: | لاشوں کا ساحل (حصہ اول) |
Series: | تینوں پارٹیوں کی مشترکہ مہم |
Publisher: | اشتیاق پبلی کیشنز |
Year: | اکتوبر 1992 |
آپ جانتے ہیں، جب میں ایک ناول شروع کرنے لگتا ہوں تو اس وقت میری کیا حالت ہوتی ہے۔ اگر نہیں معلوم تو سُن لیجیے۔ لیکن نہیں، آپ سُن کہاں رہے ہیں، آپ تو پڑھ رہے ہیں۔ خیر پڑھ لیجیے۔ اس وقت میرے ذہن میں کوئی بات نہیں ہوتی۔ مجھے نہیں پتا ہوتا کہ کیا لکھنا ہے۔ بلکہ یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کیوں لکھنا ہے۔ ذہن میں کسی کہانی کا خاکہ بھی اکثر نہیں ہوتا اور جب خاکہ نہیں ہوتا تو کہانی کا پلاٹ تو سرے سے نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا نہیں ہوتا۔۔۔ نہیں ہو سکتا نا۔۔۔ چلیے شکر ہے۔ آپ نے میری ایک یہ بات تو کم از کم مان لی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ناول شروع کروں تو کیسے کروں۔ یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ شروع نہ کروں اور یہ سوچنے میں پورا وقت صرف کر دوں کہ آخر لکھوں تو کیا لکھوں۔ اس لیے کہ میرے پاس تو دن پہلے ہی حساب کے سوال کے جواب کی طرح پورے پورے ہیں۔ ایک دن کے گھنٹے گن گن کر استعمال کرتا ہوں، جیسے کوئی کنجوس آدمی روپے گن گن کر استعمال کرتا ہے۔ غلط کہہ گیا۔۔۔ بلکہ غلط کہہ نہیں۔۔۔ غلط لکھ گیا کہ وہ گن گن کر استعمال کرتا ہے۔ استعمال کہاں کرتا ہے۔ گن گن کر سنبھال سنبھال کر رکھتا چلا جاتا ہے۔ رکھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ خود ایک دن قبر میں چلا جاتا ہے، اور دولت بیچاری خرچ ہونے کے انتظار میں سسکتی رہ جاتی ہے۔ پھر بیٹے مزے اڑاتے ہیں اور اس کو دونوں ہاتھوں سے ضائع کرتے ہیں۔
لیجیے بات کیا ہو رہی تھی اور میں کیا لے بیٹھا۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ان باتوں میں بس یہی بات بُری ہے کہ کہیں کی کہیں نکل جاتی ہیں۔ بلکہ ان کا تو سرا تک ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ اوہ نہیں۔۔۔ ہاتھ سے نہیں۔۔۔ منہ سے۔۔۔ بلکہ دماغ سے۔۔۔ ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا۔ یہ ایک اور مصیبت ہے۔ بھول گیا کہ کیا لکھ رہا تھا۔ کہہ تو پھر بھی نہیں رہا تھا۔ ٹھہریے۔۔۔ ذرا میں اوپر سے پڑھ کر دیکھ لوں کہ کیا لکھ رہا تھا۔ پتا نہیں، کیا لکھنا چاہ رہا ہوں اور کیا لکھا جا رہا ہے آج ذہن کچھ قابو میں نہیں ہے، آپ ان اکھڑی اکھڑی دو باتیں سے ہی گزر بسر کر لیجیے گا۔ ان کو اوڑھنا بچھونا بنانے کو تو کہہ کون رہا ہے۔
بات ایک بار پھر ہاتھ سے نکل گئی۔ پوری پوری کوشش کے باوجود۔۔۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے اختیار میں کچھ نہیں۔ سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے، اور جو لوگ اللہ کے سوا کسی اور کو مختار ٹھہراتے ہیں۔۔۔ وہ شرک کرتے ہیں۔۔۔ لیجیے۔۔۔ میں تو اب اور بھی دُور نکل گیا۔۔۔ آپ تو اتنی سی دیر میں آ گئے ہوں گے تنگ۔۔۔ آ گئے ہیں نا۔۔۔ نہیں۔۔۔ آپ بھی کمال کے قاری ہیں۔۔۔ یعنی میں کچھ بھی اوٹ پٹانگ دو باتیں لکھ ڈالوں۔۔۔ آپ تنگ نہیں آئیں گے۔۔۔ کمال ہے۔۔۔ قاری ہوں تو ایسے۔۔۔ اللہ ایسے قاری مجھے بے تحاشہ دے۔۔۔ آمین۔ اب منہ کیا دیکھ رہے ہیں۔ پھوٹے منہ سے آمین بھی نہیں کہہ سکتے۔۔۔ بس بس ۔۔۔ مسکرانے کی ضرورت نہیں۔۔۔ کسی اور موقعے پر یہ آپ کی مسکراہٹ کام آجائے گی۔ بچا بچا کے رکھیے۔۔۔ علامہ اقبال رحمتہ اللہ کے شعر کی طرح نہیں:
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے۔۔۔۔۔
اُف! اب تو میں اور بھی دُور نکل گیا۔۔۔ واپسی مشکل ہوگئی۔۔۔ پتا نہیں، کیا بات شروع کی تھی۔۔۔ اور کیا ہو کر رہ گئی۔۔۔ ارے ہاں! یاد آیا۔ میں تو آپ کو یہ بات بتانے جا رہا تھا۔ کہ ایک ناول شروع کرتے وقت میرے ذہن میں خاک بھی نہیں ہوتا۔۔۔ لیکن اب یہ بات سمجھانے کی ضرورت نہیں رہی۔ آپ جان ہی گئے ہوں گے۔۔۔ کیا جان گئے ہوں گے۔ بھئی یہی دیکھ لیجیے نا۔۔۔ یہ دو باتیں لکھنے سے پہلے مجھے یہ بھی تو معلوم نہیں تھا۔۔۔ اندازہ نہیں تھا۔۔۔ کچھ پتا نہیں تھا کہ کیا دو باتیں لکھوں گا۔۔۔ اور دیکھ لیں۔۔۔ لکھی گئیں۔
بس اسی طرح ناول لکھ مارتا ہوں۔۔۔ اب پتا چلا آپ کو۔۔۔ اگر نہیں تو پھر آپ سے خدا سمجھے۔۔۔ میں تو چلا ناول لکھنے۔۔۔
لاشوں کا ساحل ناول پڑھنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ
یہ وقت نماز کا تو نہیں۔
آپ کو سکُول کا کوئی کام تو نہیں کرنا۔
کل آپ کا کوئی ٹیسٹ یا امتحان تو نہیں۔
آپ نے کسی کو وقت تو نہیں دے رکھا۔
آپ کے ذمے گھر والوں نے کوئی کام تو نہیں لگا رکھا۔
اگر ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی ہو تو ناول الماری میں رکھ دیں۔ پہلے نماز اور دوسرے کاموں سے فارغ ہو لیں، پھر ناول پڑھیں۔ شکریہ
مخلص
اشتیاق احمد
Before reading a Lashon ka Sahil (Part 1) novel, make sure of the following:
- This is not the time for prayer.
- You don't have any school work to do.
- There are no tests or exams scheduled for tomorrow.
- You haven't committed to giving your time to anyone.
- Your family members haven't assigned any tasks to you.
If any of these conditions are true, put the novel in the closet. First, complete your prayers and other tasks, and then you can read Lashon ka Sahil (Part 1). Thank you.
Regards,
Ishtiaq Ahmed